Monday 14 July 2014

ISRAIL ATTACH ON HAMMAS

اسرائیلی فوج اور حماس کے عسکری شعبے سمیت غزہ کی پٹی میں موجود دیگر فلسطینی مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی ایک ایسی جنگ ہے جس میں دونوں فریقوں کو دستیاب ہتھیاروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عسکری صلاحیت میں اتنے زیادہ فرق کے باوجود دونوں فریق ایک دوسرے کو اچھے خاصے دباؤ سے دوچار کر سکتے ہیں۔
ہتھیاروں میں فرق کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ دونوں جانب ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بہت فرق ہوگا۔ حالیہ تنازعے میں جوں جوں اسرائیل کے فضائی حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ چھوٹے سے رقبے پر پھیلا ہوا ایک گنجان آباد مقام ہے، اور اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے ڈھانچے کا بڑا حصہ اسی شہر کی گلی محلوں میں قائم ہے۔
اسرائیلی افوج کا کہنا ہے کہ وہ ہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ عام شہری ان کے حملوں کی زد میں کم سے کم آئیں، لیکن اسرائیلی فوج کی موجودہ حمکت عملی کے کئی پہلوایسے ہیں جن کی اسرائیل کی انسانی حقوق کی اپنی تنظیمیں مذمت کر رہی ہیں، مثلاً غزہ کی گنجان آبادی میں موجود مشہور فلسطینی عسکری کمانڈروں کے گھروں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر ہر کسی کو اعتراض ہے۔

راکٹ اہم

"
اگرچہ اسرائیلی فوج عسکری کمانڈروں کے گھروں کو نشانہ بنانے سے پہلے علاقے کے لوگوں کو خبردار بھی کرتی ہے لیکن اس سے یہ حقیقت ختم نہیں ہو جاتی کہ ان حملوں   میں عام شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں فریق اس لڑائی میں کیا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں کہ دونوں جانب تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور خونریز زمینی لڑائی کے امکانات میں 

فلسطینی راکٹ

غزہ میں موجود حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں نے گذشتہ برسوں میں نہ صرف بنیادی راکٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر لیا ہے بلکہ یہ گروہ ان راکٹوں کی صلاحیت میں بھی مسلسل اضافہ کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں کوئی بھی راکٹ ایسا نہیں ہے جسے آپ ایک اہم ہتھیار کہہ سکیں، تاہم اس جنگ میں ان راکٹوں کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔
ان راکٹوں کی اکثریت سوویت ساخت کی ہے اور بنیادی طور پر یہ تمام آرٹلری یا توپ کے ذریعے پھینکے جانے والی راکٹ ہیں۔ان راکٹوں کی ساخت ایسی ہے کہ انھیں انفرادی طور پر نہیں پھینکا جا سکتا۔
ان میں کچھ راکٹ تو سرنگوں کے ذریعے صحارئے سینا سے سمگل کیے گئے، کچھ غزہ کی پٹی پر حماس کی اسلحہ فیکٹریوں میں بنائے گئے، تاہم ان راکٹوں کی بڑی تعداد کا انحصار اب بھی ان پُرزوں پر ہے جو سرنگوں کے ذریعے ایران اور شام سے سمگل کیے جاتے ہیں یا کسی دوسرے راسطے سے غزہ پہنچائے جاتے ہیں۔
اسرائیلی سرحد کے اندر گرنے والا حماس کا ایک راکٹ
کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں میں بڑے گولے، گراڈ اور قسّام راکٹ شامل ہیں جو بالترتیب 48 کلومیٹر اور 17 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کو خطرہ ہے کہ ان راکٹوں سے جنوبی اسرائیل میں سدورت، آشکلون کے قصبوں اور حتیٰ کہ اشدود کی بندرگاہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
ان کے علاوہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کے پاس دُور تک مار کرنے والے فجر-5 راکٹ ہیں جنھیں بعض اوقات ایم-75 کی شکل بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ 75 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں جس سے تل ابیب اور یروشلم جیسے اسرائیل کے بڑے آبادی کے مراکز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
لیکن فجر-5 کے استعمال میں حماس کو بڑے عملی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ راکٹ نہ صرف وزن میں بہت زیادہ ہے بلکہ اس کا حجم (تقریباً چھ میٹر) بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح نہ تو اسے ہاتھوں سے لگایا جا سکتا اور نہ ہی اسے زیادہ دیر تک اسرائیل کے ڈرونز کی نظروں سے اوجھل رکھا جا سکتا۔
حالیہ لڑائی میں فلسطینیوں نے بظاہرایک نیا دُور مار کرنے والا راکٹ بھی استعمال کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ شام کا بنا ہوا خیبر-1 میزائل ہے۔اسے عزہ سے پہلی مرتبہ اسے اِس ماہ کے شروع میں داغا گیا تھا اور یہ 160 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خیبر-1 کے علاوہ موجودہ لڑائی میں حماس کی جانب سے ایم-302 میزائل کے استعمال کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں جو کہ خیبر-1 جتنے فاصلے تک مار کر سکتا ہے۔
حماس کا ایم-75 کی اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے
حماس اور اسرائیل کی لڑائی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ کوئی راکٹ کتنی دُور تک مار کر سکتا ہے، کیونکہ اگر یہ ٹھیک نشانے پر نہ بھی لگے تب بھی حماس کے راکٹوں سے اسرائیلی علاقوں میں معمول کی زندگی میں خلل اور عوام میں خوف پیدا کیا جا سکتا ہے۔اس کے نتیجے میں اسرائیل کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، تاہم اس دباؤ کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ اس سے اسرائیل غزہ پر حملوں میں اضافہ بھی کر سکتا ہے لیکن اسرائیل پر یہ دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کہ وہ اس جنگ کو طول نہ دیتے اور اسرائیلی عوام کو خوف سے بچائے۔
حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے زیادہ دیر تک نہیں کر سکتے۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کم فاصلے تک مار کرنے والے راکٹوں کا ایک بڑا ذحیرہ تو موجود ہے لیکن اس کے دُور مار کرنے والے راکٹوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔
اس کے علاوہ فلسطینی رہنما یہ بات بھی جانتے ہیں کہ جب سے نئی مصری حکومت نے غزہ اور صحرائے سینا کے درمیان سرنگوں کو بند کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں، مستقبل میں میزائل اور ان کے پُرزے غزہ پہنچانا آسان نہیں رہے گا۔

اسرائیل کے اندر نفوس

یہ کہنا بھی درست نہیں ہوگا کہ فلسطینی گروہ مخص اسرائیلی فضائی حملوں کے نشانے پر ہیں، بلکہ انھوں نے اسرائیلی فوج کی جانب سے زمینی کارروائی کو روکنے کے لیے دفاعی منصوبے بھی تشکیل دیے ہوئے ہیں۔اس کے لیے فلسطینیوں نے ماضی کی اسرائیلی کارروائیوں سے سیکھتے ہوئے زیر زمین راستوں سے اسرائیلی فوجیوں کے غزہ میں داخلے کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کر رکھے ہوں گے۔
اس کے علاوہ فلسطینیوں نے اسرائیلی علاقوں پر محدود پیمانے پر حملے کرنے کی کوشش بھی کی ہے، جس میں اسرائیلی بحریہ کی نظروں سے بچ کر چھوٹھے چھوٹے مسلح گروہوں کو اسرائیلی ساحل سمند پر اتارنا بھی شامل تھا، تاہم اسرائیل جلد ہی ان لوگوں کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوگیا۔

اسرائیل کا آہنی گُنبد

اسرائیلی فضائیہ کے ان حملوں میں درجنوں فلسطینی شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں
اب تک حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیل نے دفاعی حمکت عملی کے ساتھ ساتھ غزہ پر حملے بھی جاری رکھے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ گذشتہ دنوں میں غزہ میں ان مقامات پر تابڑ توڑ حملوں کے دوران ہر قسم کے میزائل استعمال کر چکی ہے جہاں سے حماس کے راکٹ برسائے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ کے ان حملوں میں درجنوں فلسطینی شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، لیکن ماضی کے اسرائیلی فضائی حملوں کے مقابلے میں حالیہ حملے ابھی تک اتنے شدید نہیں ہوئے۔
اسرائیل کے دفاعی اقدامات اور اس کے حملوں، دونوں میں اسرائیل اپنے اُس دفاعی نظام کو بہت اہمیت دیتا ہے جس کے تحت اس نے اپنے عام شہریوں کے بچاؤ کے لیے آہنی گنبد یا ’آئرن ڈوم‘ بنایا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک اسرائیل کا یہ نظام کامیاب ہے، حالیہ جنگ کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
اگر یہ دفاعی نظام کام نہیں کرتا اور غزہ سے کسی راکٹ حملے میں اسرائیلی شہریوں کی قابل ذکر تعداد زخمی یا ہلاک ہو جاتی ہے تو اسرائیل یقیناً زمینی کارروائی شروع کر دے گا۔
اسرائیلی اعداد وشمار کے مطابق جمعرات کی صبح تک اسرائیل پر 255 راکٹ پھینکے گئے جن میں صرف 75 ایسے تھے جنھیں اسرائیل اپنے آہنی گنبد سے روکنے میں کامیاب رہا۔
فضائیہ اور آہنی گنبد کے علاوہ اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائی کے لیے اپنی افواج کو تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب تک تین برگیڈ غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ تعینات کیے جا چکے ہیں جبکہ اضافی فوجیوں کو بھی تیار رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔

آگے کیا ہوگا؟

اگر راکٹ حملے جاری رہتے ہیں تو اسرائیلی فضائی حملے بھی جاری رہیں گے اور ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
حماس کی سب سے بڑی ’کامیابی‘ یہی ہوگی کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کے اندر کھینچ لائے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر عالمی تنقید میں میں بھی شدت آئے گی، لیکن اگر حماس کے راکٹ حملے نہیں تھمتے تو اسرائیل کے حمایتی اور دوست ممالک بھی یہ محسوس کریں گے کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
لیکن دوسری جانب حماس بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مصر کے ساتھ اس کے خراب تعلقات، اس کے مالی مسائل اور غرب اردن میں اس کے ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی کا مطلب یہی ہے کہ حماس تنہا ہوتی جا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ حماس کے عسکری کمانڈروں کی خواہش ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف جس ’مزاحمت‘ کا مظاہرہ کیا ہے اس کے صلے میں انہیں کچھ تو حاصل ہو۔
حماس کا کمزور ہونا اسرائیل کے حق میں بھی اچھا نہیں۔ اسرائیل میں دائیں بازو کی خواہش تو یہی ہے کہ حماس کا نام و نشان مٹا دیا جائے، لیکن اسرائیل ایسا کر نہیں سکتا، کیونکہ اگر حماس حکومت میں نہیں رہتی تو انتہاپسند جہادی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور اردگرد کے علاقوں سے مذید جہادی غزہ پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ اس سے اسرائیل کے مستقبل کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

موجودہ لڑائی میں اسرائیل کا اصرار یہ ہے کہ وہ غزہ میں داخل نہیں گا، لیکن حماس کی سب سے بڑی ’کامیابی‘ یہی ہوگی کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کے اندر کھینچ لائے
BEST REGARD,S
RANA MUHAMMAD KAMRAN