Suggested safety rules during and after the earthquake are as follows:
During the earthquake:
Do not panic, keep calm.
Douse all fires.
If the earthquake catches you indoors, stay indoors. Take cover under a sturdy piece of furniture. Stay away from glass, or loose hanging objects.
If you are outside, move away from buildings, steep slopes and utility wires.
If you are in a crowded place, do not rush for cover or to doorways.
If you are in a moving vehicle, stop as quickly as safety permits, but stay in the vehicle until the shaking stops.
If you are in a lift, get out of the lift as quickly as possible.
If you are in a tunnel, move out of the tunnel to the open as quickly as safety permits.
After the earthquake:
Check for casualties and seek assistance if needed.
If you suspect a gas leak, open windows and shut off the main valve. Leave the building and report the gas leaks. Do not light a fire or use the telephone at the site.
Turn off the main valve if water supply is damaged.
Do not use the telephone except to report an emergency or to obtain assistance.
Stay out of severely damaged buildings as aftershocks may cause them to collapse. Report any building damage to the authorities.
As a precaution against tsunamis, stay away from shores, beaches and low-lying coastal areas. If you are there, move inland or to higher grounds. The upper floors of high, multi-storey, reinforced concrete building can provide safe refuge if there is no time to quickly move inland or to higher grounds.
انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ آبشاروں اور مجسموں سے سجے اس باغ کے اندر نیک چند بتا رہے ہیں کہ کس طرح وہ اٹھارہ برس تک راتوں کو خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے اور کس طرح انہوں نے شمالی ہندوستان میں پریوں کا یہ نگر تخلیق کیا۔
وہ رات گئے اپنی سائیکل پر سوار ہوکر گھپ اندھیرے میں ریاست کے ملکیتی جنگل میں نکل جاتا اور وہاں اٹھارہ سال تک راتوں کی تاریکی میں زمین کو صاف کرکے اس جگہ کو جادوئی باغ میں تبدیل کرنے میں لگا رہا جو بیس ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
نیک چند نے اے ایف پی کو اپنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا "میں نے چندی گڑھ میں اس باغ کو مشغلے کے طور پر 1950 کی دہائی میں تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور اٹھارہ سال تک کسی کو بھی اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا، جس کی وجہ یہاں جنگل کا ہونا تھا اس لیے یہاں کس نے آنا تھا اور کس لیے؟ یہاں آنے جانے کے لیے سڑکیں بھی موجود نہیں تھیں"۔
اب یہ باغ ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے بعد ہونے والے فسادات میں لاتعداد عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور اس ملبے سے روڈ انسپکٹر کا کام کرنے والے نیک چند نے وہ چیزیں منتخب کیں جو اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی تھیں — اے ایف پی فوٹو
مٹی کے ٹکڑے، شیشہ اور ٹائلوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے باتھ رومز کے حصوں کو بھی مرد و خواتین، پریوں، شیطانوں، ہاتھیوں اور بندروں کے مجسمے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے بقول "میرے پاس متعدد خیالات تھے اور میں ہر وقت اس باغ کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا، میں نے تمام تعمیراتی سامان ملبے سے اکھٹا کرکے سائیکل پر لاد کر مطلوبہ مقام پر پہنچانا شروع کیا" — اے ایف پی فوٹو
جب نیک چند کا یہ راز 1976 میں سامنے آیا تو انتظامیہ نے اس باغ کو گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے مگر حیرت میں مبتلا عوام نیک چند کے پیچھے تھے جس کے باعث اسے چندی گڑھ کے اس نئے نویلے پہاڑی باغ کا سربراہ بنا دیا گیا — اے ایف پی فوٹو
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیک چند نے فنون لطیفہ یا مجسمہ سازی کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی بلکہ انہیں یہ خیال بچپن میں اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے گاﺅں میں دریا کے کنارے کھیلا کرتے تھے اب وہ مقام پاکستان کا حصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند فاﺅنڈیشن کے ایک برطانوی رضاکار ایلن سیزرانو کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ ان مجسموں کا معیار بچکانہ محسوس ہوتا ہے اور ان کو غور سے دیکھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہ ایک افسانوی ریاست کا بچگانہ ورژن ہے" — اے ایف پی فوٹو
اس نے مزید کہا "درحقیقت یہ اپنی طرز کا دنیا میں واحد مقام ہے، انتظامیہ اور عوام کو اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہئے" — اے ایف پی فوٹو
اسی طرح کچھ پُرجوش سیاح اکثر آبشاروں یا دیگر چیزوں پر چڑھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں جس سے ان نازک اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے، اس باغ کی دیکھ بھال کرنے والے رضاکاروں میں شامل مانی ڈھلون کا کہنا ہے " ایک ایسا ملک جو اپنی کچی بستیوں اور کچرا گھروں کی بناء پر زیادہ جانا جاتا ہو وہاں یہ پہاڑی باغ ایک غیرمعمولی مثال سمجھا جاسکتا ہے" — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول اس باغ کے راستے نقاشی سے مزئین کیے گئے، یہاں خفیہ چیمبر اور آنگن بھی موجود ہیں "میں اپنی سائیکل پر روزانہ چار چکر لگا کر سامان پہنچاتا تھا میں نے لوگوں کی نظر میں کچرے کی حیثیت اختیار کرنے والے سامان میں خوبصورت آرٹ تلاش کرلیا تھا" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند نے وہاں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ سینکڑوں مجسمے سجا رکھے ہیں جن میں بیشتر کو تباہ شدہ مکانات کے ملبے اور بے کار ذاتی مصنوعات جیسے برقی ساکٹس، سوئچز، چوڑیوں اور سائیکل کے فریمز وغیرہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے — اے ایف پی فوٹو
کچھ مجسمے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے تیار کیے گئے جس میں لڑکیوں کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جیسے جیسے اس خفیہ باغ کی خبر پھیلنا شروع ہوئی وہاں لگائے جانے والے ٹکٹوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی اور اب روزانہ ہندوستان بھر اور بیرون ملک سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد اس حیرت کدہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے مجسمے اب دنیا بھر کے میوزیمز کا حصہ بن رہے ہیں جن میں واشنگٹن کا نیشنل چلڈرن میوزیم اور دیگر شامل ہیں تاہم چندی گڑھ میں اس باغ کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ ریاستی حکومت کی جانب سے کم فنڈز کی فراہمی اور ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خود لے لینا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند اب بھی اس باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں روزانہ ہی آتے ہیں مگر ان کی بڑھتی عمر اور کمزور بینائی کے باعث ان کے لیے نئے مجسموں کی تخلیق کا وقت نہیں رہا — اے ایف پی فوٹو
تاہم وہ اپنے نصف صدی پرانے حیرت انگیز باغ کو بچانے کے لیے پُرعزم ہیں "میں کسی بات سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر میں خوفزدہ ہوتا تو کس طرح جنگل میں رات کی تاریکی میں کام کرپاتا؟ — اے ایف پی فوٹو
ماضی میں ایک امریکی فوجی اڈے کے نزدیک کام کرنے والی 120 سابق طوائفوں نے جوبی کوریا کی حکومت کے خلاف معاوضے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جسم فروشی میں ان کی اعانت کی اور انھیں بڑھاپے میں غربت سے دوچار کر دیا ہے۔
تاریخ میں جب بھی بڑی فوجوں نے کہیں قیام کیا وہاں چھاونیوں کے گرد ونواح میں خستہ حال بستیاں قائم ہوتی رہی ہیں۔ اور جنوبی کوریا میں ان بستیوں کی دیواریں امریکی فوجی اڈوں کی دیواروں تک پھیل گئی تھیں جو رات بھر بلند آواز موسیقی کی تھرتھراہٹ اور جلتےبجھتے برقی قمقموں میں ڈوبی رہتیں اور دن گذشتہ رات کی دھمکا چوکڑی کی باقیات کو سمیٹنے میں گزر جاتا تھا۔
آج یہ بستیاں ایک عجیب قانونی چارہ جوئی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بڑھاپے کی دھلیز پر کھڑی 120 سے زائد غریب خواتین نہ صرف امریکی حکام بلکہ اپنی حکومت کے خلاف 10 ہزار ڈالر فی کس کے ہرجانے کے دعوے لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے امریکی فوجیوں کو خوش رکھنے کی خاطر جسم فروشی میں ان کی اعانت کی تھی۔
گذشتہ دنوں یہ خواتین یوجینبو نامی شہر کے نواح میں امریکی فوجی اڈے کے قریب واقع ایک کمیونٹی سینٹر میں جمع ہوئیں اور لوگوں کے سامنے اپنے مقدمے کی وضاحت کی۔
’ہم ساری رات کام کرتی تھیں۔ میں کوریا کی حکومت سے یہ چاہتی ہوں کہ وہ یہ بات تسلیم کرے کہ یہ نظام اس نے بنایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے مالی نقصان کی تلافی کی جائے۔‘
سابقہ طوائفوں کا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا تھا، اس لحاظ سے یہ کوئی جنسی غلامی کا مقدمہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے چونکہ سرکاری سطح پر ان کی جنسی صحت کے معائنے کا باقاعدہ نظام ترتیب دیا تھا اس لیے حکومت اس جرم میں شریک تھی اور حکومت کے نظام کی وجہ سے ہی وہ آج غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ جنسی صحت کے معائنوں کے علاوہ حکومت انھیں محفل کے ’مغربی آداب‘ اور انگریزی زبان کی تربیت بھی دیتی رہی ہے۔ کمیونٹی سینٹر میں جمع تمام خواتین نے تسلیم کیا کہ جسم فروشی کی جانب راغب ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ خود بھی غریب تھیں اور ایک انتہائی غریب ملک میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے نوکری کی درخواستیں دی تھیں تو ان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کس قسم کی ملازمت ہوگی۔چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ ملازمت کے لیے منتخب ہونے کے بعد یہ خواتین خود کو کسی شراب خانے یا جسم فروشی کے اڈے پر پاتی تھیں، جہاں جلد ہی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں بار یا اڈے کے مالک سے ادھار لینا پڑ جاتا تھا، جس کے بعد وہ جسم فروشی کے نظام میں جکڑ لی جاتی تھیں۔
ایک خاتون کا کہنا تھا: ’سنہ 1972 میں جب میں ملازمت کے لیے ایک سینٹر پر پہنچی تو وہاں پر موجود افسر نے مجھے کہا کہ ذرا کرسی سے اٹھو اور پھر بیٹھ جاؤ۔ اس نے مجھے دیکھا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک ایسی ملازمت دلائے گا جہاں رہنے کو جگہ اور کھانے کو ملے گا اور باقی سب چیزیوں کی ذمہ داری میرے باس کی ہو گی۔‘ سینٹر میں جمع خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جسم فوشی میں حکومت کی خاموش رضامندی شامل تھی کیونکہ اس وقت ملک کو غیر ملکی کرنسی کی بھی ضرورت تھی۔ ’ہر کوئی طوائفوں کو تو برا بھلا کہتا تھا، لیکن طوائفیں ملک میں جو ڈالر لا رہی تھیں وہ حکومت کو بہت اچھے لگتے تھے۔‘
یہاں تک کہ اگر کوئی عورت کلبوں میں کام کر کے ڈالر کماتی تھی تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ محب وطن ہے، یعنی ایک محنتی کوریائی خاتون۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ان برسوں میں بہت ڈالر کمائے تھے۔
اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ہوئے کبھی تو غصے سے ان خواتین کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور کبھی غم میں ڈوب جاتی تھی۔
ایک خاتون نے بتایا: ’میں نے ایک ملازمت کی پیشکش قبول کر لی اور میں بار میں پہنچ گئی۔ لیکن میں بار میں پہنچتے ہی وہاں سے بھاگ گئی۔ آخر کار کلب کے مالک نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا اور مجھے ایک دوسرے کلب کے مالک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جسم فروشی کی۔‘
ان خواتین کے دعوے اپنی جگہ، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا مقدمہ پیچیدہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جنسی صحت کے مراکز قائم کیے تھے، لیکن ان مراکز کی جگہ پہلے غیر سرکاری ڈاکٹر کام کر رہے تھے ان میں کچھ کی طبی تربیت درست نہیں تھی اور وہ ہر عورت کو یہ سرٹیفیکیٹ دے دیتے تھے کہ اس کی جنسی صحت بالکل ٹھیک ہے اور اس سے کسی مرد کو جنسی بیماری منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
کوریا کی حکومت ان خواتین کے مقدمے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کر رہی ہے، تاہم جب مقدمہ عدالت میں پہنچے گا تو ممکن ہے حکومت یہ موقف اختیار کر لے کہ جنسی صحت کے مراکز قائم کرنے کا مقصد خواتین کی صحت کا خیال رکھنا تھا، نہ کہ جسم فروشی کی ترغیب دینا۔
دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سنہ 1970 کے عشرے میں جنوبی کوریا کی حکومت کو واقعی خدشہ تھا کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے۔
واشنگٹن میں برکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار اور جنوبی کوریا میں جسم فروشی اور اس میں امریکی فوجیوں کے کردار پر مستند ترین کتاب ’اتحادیوں میں سیکس‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کیتھی مون نے بھی اس مقدمے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
’میرا خیال ہے جہاں جنوبی کوریا کی حکومت کا کچھ کردار نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ سنہ 1970 کے عشرے میں مرکزی حکومت کے کچھ افسران نے امریکی چھاونیوں کے قریب ان بستیوں میں جا کر جسم فروشی کرنے والی خواتین سے کہا تھا کہ وہ امریکی فوج کے افسران سے تعاون کیا کریں۔‘