Tuesday 16 December 2014

PESHAWAR INCIDENT 141 KILLED





 - See more at: http://www.thenewstribe.com/urdu/?p=443344#sthash.ze9wxYga.dpuf

PESHAWAR ATTACK



 - See more at: http://www.thenewstribe.com/urdu/?p=443290#sthash.PkhZYIFj.dpuf

PESHAWAR ATTACK

                                                            PESHAWAR ATTACK

NOW 16-12-2014 A VERY SAD INCEDENT OCCURE IN PESHAWAR SCHOOL . 126 CHILL KILLED IN THIS ATTACH & 150+ INJURED.

Monday 15 December 2014

‫خفیہ باغ: 18 سال کی محنت کا منہ بولتا ثبوت

انسانی ہاتھوں سے تیار کردہ آبشاروں اور مجسموں سے سجے اس باغ کے اندر نیک چند بتا رہے ہیں کہ کس طرح وہ اٹھارہ برس تک راتوں کو خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے اور کس طرح انہوں نے شمالی ہندوستان میں پریوں کا یہ نگر تخلیق کیا۔
وہ رات گئے اپنی سائیکل پر سوار ہوکر گھپ اندھیرے میں ریاست کے ملکیتی جنگل میں نکل جاتا اور وہاں اٹھارہ سال تک راتوں کی تاریکی میں زمین کو صاف کرکے اس جگہ کو جادوئی باغ میں تبدیل کرنے میں لگا رہا جو بیس ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
نیک چند نے اے ایف پی کو اپنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا "میں نے چندی گڑھ میں اس باغ کو مشغلے کے طور پر 1950 کی دہائی میں تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور اٹھارہ سال تک کسی کو بھی اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا، جس کی وجہ یہاں جنگل کا ہونا تھا اس لیے یہاں کس نے آنا تھا اور کس لیے؟ یہاں آنے جانے کے لیے سڑکیں بھی موجود نہیں تھیں"۔
اب یہ باغ ایک اہم سیاحتی مرکز بن چکا ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد آتے ہیں۔
تقسیم برصغیر کے بعد ہونے والے فسادات میں لاتعداد عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور اس ملبے سے روڈ انسپکٹر کا کام کرنے والے نیک چند نے وہ چیزیں منتخب کیں جو اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی تھیں — اے ایف پی فوٹو
تقسیم برصغیر کے بعد ہونے والے فسادات میں لاتعداد عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور اس ملبے سے روڈ انسپکٹر کا کام کرنے والے نیک چند نے وہ چیزیں منتخب کیں جو اس کی نظر میں بہت اہمیت رکھتی تھیں — اے ایف پی فوٹو
مٹی کے ٹکڑے، شیشہ اور ٹائلوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے باتھ رومز کے حصوں کو بھی مرد و خواتین، پریوں، شیطانوں، ہاتھیوں اور بندروں کے مجسمے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا — اے ایف پی فوٹو
مٹی کے ٹکڑے، شیشہ اور ٹائلوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے باتھ رومز کے حصوں کو بھی مرد و خواتین، پریوں، شیطانوں، ہاتھیوں اور بندروں کے مجسمے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے بقول "میرے پاس متعدد خیالات تھے اور میں ہر وقت اس باغ کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا، میں نے تمام تعمیراتی سامان ملبے سے اکھٹا کرکے سائیکل پر لاد کر مطلوبہ مقام پر پہنچانا شروع کیا" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے بقول "میرے پاس متعدد خیالات تھے اور میں ہر وقت اس باغ کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا، میں نے تمام تعمیراتی سامان ملبے سے اکھٹا کرکے سائیکل پر لاد کر مطلوبہ مقام پر پہنچانا شروع کیا" — اے ایف پی فوٹو
جب نیک چند کا یہ راز 1976 میں سامنے آیا تو انتظامیہ نے اس باغ کو گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے مگر حیرت میں مبتلا عوام نیک چند کے پیچھے تھے جس کے باعث اسے چندی گڑھ کے اس نئے نویلے پہاڑی باغ کا سربراہ بنا دیا گیا — اے ایف پی فوٹو
جب نیک چند کا یہ راز 1976 میں سامنے آیا تو انتظامیہ نے اس باغ کو گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی ملکیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے مگر حیرت میں مبتلا عوام نیک چند کے پیچھے تھے جس کے باعث اسے چندی گڑھ کے اس نئے نویلے پہاڑی باغ کا سربراہ بنا دیا گیا — اے ایف پی فوٹو
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیک چند نے فنون لطیفہ یا مجسمہ سازی کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی بلکہ انہیں یہ خیال بچپن میں اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے گاﺅں میں دریا کے کنارے کھیلا کرتے تھے اب وہ مقام پاکستان کا حصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیک چند نے فنون لطیفہ یا مجسمہ سازی کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی بلکہ انہیں یہ خیال بچپن میں اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے گاﺅں میں دریا کے کنارے کھیلا کرتے تھے اب وہ مقام پاکستان کا حصہ ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند فاﺅنڈیشن کے ایک برطانوی رضاکار ایلن سیزرانو کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ ان مجسموں کا معیار بچکانہ محسوس ہوتا ہے اور ان کو غور سے دیکھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہ ایک افسانوی ریاست کا بچگانہ ورژن ہے" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند فاﺅنڈیشن کے ایک برطانوی رضاکار ایلن سیزرانو کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ ان مجسموں کا معیار بچکانہ محسوس ہوتا ہے اور ان کو غور سے دیکھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت یہ ایک افسانوی ریاست کا بچگانہ ورژن ہے" — اے ایف پی فوٹو
اس نے مزید کہا "درحقیقت یہ اپنی طرز کا دنیا میں واحد مقام ہے، انتظامیہ اور عوام کو اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہئے" — اے ایف پی فوٹو
اس نے مزید کہا "درحقیقت یہ اپنی طرز کا دنیا میں واحد مقام ہے، انتظامیہ اور عوام کو اس کی اہمیت کا احساس کرنا چاہئے اور اس کے تحفظ کے لیے آگے آنا چاہئے" — اے ایف پی فوٹو
اسی طرح کچھ پُرجوش سیاح اکثر آبشاروں یا دیگر چیزوں پر چڑھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں جس سے ان نازک اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے، اس باغ کی دیکھ بھال کرنے والے رضاکاروں میں شامل مانی ڈھلون کا کہنا ہے " ایک ایسا ملک جو اپنی کچی بستیوں اور کچرا گھروں کی بناء پر زیادہ جانا جاتا ہو وہاں یہ پہاڑی باغ ایک غیرمعمولی مثال سمجھا جاسکتا ہے" — اے ایف پی فوٹو
اسی طرح کچھ پُرجوش سیاح اکثر آبشاروں یا دیگر چیزوں پر چڑھ جاتے یا لیٹ جاتے ہیں جس سے ان نازک اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے، اس باغ کی دیکھ بھال کرنے والے رضاکاروں میں شامل مانی ڈھلون کا کہنا ہے " ایک ایسا ملک جو اپنی کچی بستیوں اور کچرا گھروں کی بناء پر زیادہ جانا جاتا ہو وہاں یہ پہاڑی باغ ایک غیرمعمولی مثال سمجھا جاسکتا ہے" — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول اس باغ کے راستے نقاشی سے مزئین کیے گئے، یہاں خفیہ چیمبر اور آنگن بھی موجود ہیں "میں اپنی سائیکل پر روزانہ چار چکر لگا کر سامان پہنچاتا تھا میں نے لوگوں کی نظر میں کچرے کی حیثیت اختیار کرنے والے سامان میں خوبصورت آرٹ تلاش کرلیا تھا" — اے ایف پی فوٹو
ان کے بقول اس باغ کے راستے نقاشی سے مزئین کیے گئے، یہاں خفیہ چیمبر اور آنگن بھی موجود ہیں "میں اپنی سائیکل پر روزانہ چار چکر لگا کر سامان پہنچاتا تھا میں نے لوگوں کی نظر میں کچرے کی حیثیت اختیار کرنے والے سامان میں خوبصورت آرٹ تلاش کرلیا تھا" — اے ایف پی فوٹو
نیک چند نے وہاں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ سینکڑوں مجسمے سجا رکھے ہیں جن میں بیشتر کو تباہ شدہ مکانات کے ملبے اور بے کار ذاتی مصنوعات جیسے برقی ساکٹس، سوئچز، چوڑیوں اور سائیکل کے فریمز وغیرہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند نے وہاں اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ سینکڑوں مجسمے سجا رکھے ہیں جن میں بیشتر کو تباہ شدہ مکانات کے ملبے اور بے کار ذاتی مصنوعات جیسے برقی ساکٹس، سوئچز، چوڑیوں اور سائیکل کے فریمز وغیرہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے — اے ایف پی فوٹو
کچھ مجسمے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے تیار کیے گئے جس میں لڑکیوں کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جیسے جیسے اس خفیہ باغ کی خبر پھیلنا شروع ہوئی وہاں لگائے جانے والے ٹکٹوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی اور اب روزانہ ہندوستان بھر اور بیرون ملک سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد اس حیرت کدہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
کچھ مجسمے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے تیار کیے گئے جس میں لڑکیوں کو ناچتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جیسے جیسے اس خفیہ باغ کی خبر پھیلنا شروع ہوئی وہاں لگائے جانے والے ٹکٹوں کی فروخت بھی بڑھنے لگی اور اب روزانہ ہندوستان بھر اور بیرون ملک سے تین ہزار کے لگ بھگ افراد اس حیرت کدہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے مجسمے اب دنیا بھر کے میوزیمز کا حصہ بن رہے ہیں جن میں واشنگٹن کا نیشنل چلڈرن میوزیم اور دیگر شامل ہیں تاہم چندی گڑھ میں اس باغ کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ ریاستی حکومت کی جانب سے کم فنڈز کی فراہمی اور ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خود لے لینا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند کے مجسمے اب دنیا بھر کے میوزیمز کا حصہ بن رہے ہیں جن میں واشنگٹن کا نیشنل چلڈرن میوزیم اور دیگر شامل ہیں تاہم چندی گڑھ میں اس باغ کو اپنی بقا کے چیلنج کا سامنا ہے جس کی وجہ ریاستی حکومت کی جانب سے کم فنڈز کی فراہمی اور ٹکٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی خود لے لینا ہے — اے ایف پی فوٹو
نیک چند اب بھی اس باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں روزانہ ہی آتے ہیں مگر ان کی بڑھتی عمر اور کمزور بینائی کے باعث ان کے لیے نئے مجسموں کی تخلیق کا وقت نہیں رہا — اے ایف پی فوٹو
نیک چند اب بھی اس باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور یہاں روزانہ ہی آتے ہیں مگر ان کی بڑھتی عمر اور کمزور بینائی کے باعث ان کے لیے نئے مجسموں کی تخلیق کا وقت نہیں رہا — اے ایف پی فوٹو
تاہم وہ اپنے نصف صدی پرانے حیرت انگیز باغ کو بچانے کے لیے پُرعزم ہیں "میں کسی بات سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر میں خوفزدہ ہوتا تو کس طرح جنگل میں رات کی تاریکی میں کام کرپاتا؟ — اے ایف پی فوٹو
تاہم وہ اپنے نصف صدی پرانے حیرت انگیز باغ کو بچانے کے لیے پُرعزم ہیں "میں کسی بات سے خوفزدہ نہیں ہوں، اگر میں خوفزدہ ہوتا تو کس طرح جنگل میں رات کی تاریکی میں کام کرپاتا؟ — اے ایف پی فوٹو

Monday 1 December 2014

car accident anjlina joli & david bacham



جسم فروشی میں ’قومی مفاد‘ شامل تھا

ماضی میں ایک امریکی فوجی اڈے کے نزدیک کام کرنے والی 120 سابق طوائفوں نے جوبی کوریا کی حکومت کے خلاف معاوضے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جسم فروشی میں ان کی اعانت کی اور انھیں بڑھاپے میں غربت سے دوچار کر دیا ہے۔
تاریخ میں جب بھی بڑی فوجوں نے کہیں قیام کیا وہاں چھاونیوں کے گرد ونواح میں خستہ حال بستیاں قائم ہوتی رہی ہیں۔ اور جنوبی کوریا میں ان بستیوں کی دیواریں امریکی فوجی اڈوں کی دیواروں تک پھیل گئی تھیں جو رات بھر بلند آواز موسیقی کی تھرتھراہٹ اور جلتےبجھتے برقی قمقموں میں ڈوبی رہتیں اور دن گذشتہ رات کی دھمکا چوکڑی کی باقیات کو سمیٹنے میں گزر جاتا تھا۔
آج یہ بستیاں ایک عجیب قانونی چارہ جوئی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بڑھاپے کی دھلیز پر کھڑی 120 سے زائد غریب خواتین نہ صرف امریکی حکام بلکہ اپنی حکومت کے خلاف 10 ہزار ڈالر فی کس کے ہرجانے کے دعوے لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے امریکی فوجیوں کو خوش رکھنے کی خاطر جسم فروشی میں ان کی اعانت کی تھی۔
گذشتہ دنوں یہ خواتین یوجینبو نامی شہر کے نواح میں امریکی فوجی اڈے کے قریب واقع ایک کمیونٹی سینٹر میں جمع ہوئیں اور لوگوں کے سامنے اپنے مقدمے کی وضاحت کی۔
’ہم ساری رات کام کرتی تھیں۔ میں کوریا کی حکومت سے یہ چاہتی ہوں کہ وہ یہ بات تسلیم کرے کہ یہ نظام اس نے بنایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے مالی نقصان کی تلافی کی جائے۔‘
سابقہ طوائفوں کا مقدمہ یہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا تھا، اس لحاظ سے یہ کوئی جنسی غلامی کا مقدمہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے چونکہ سرکاری سطح پر ان کی جنسی صحت کے معائنے کا باقاعدہ نظام ترتیب دیا تھا اس لیے حکومت اس جرم میں شریک تھی اور حکومت کے نظام کی وجہ سے ہی وہ آج غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ جنسی صحت کے معائنوں کے علاوہ حکومت انھیں محفل کے ’مغربی آداب‘ اور انگریزی زبان کی تربیت بھی دیتی رہی ہے۔ کمیونٹی سینٹر میں جمع تمام خواتین نے تسلیم کیا کہ جسم فروشی کی جانب راغب ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ خود بھی غریب تھیں اور ایک انتہائی غریب ملک میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے نوکری کی درخواستیں دی تھیں تو ان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ کس قسم کی ملازمت ہوگی۔چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ ملازمت کے لیے منتخب ہونے کے بعد یہ خواتین خود کو کسی شراب خانے یا جسم فروشی کے اڈے پر پاتی تھیں، جہاں جلد ہی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہیں بار یا اڈے کے مالک سے ادھار لینا پڑ جاتا تھا، جس کے بعد وہ جسم فروشی کے نظام میں جکڑ لی جاتی تھیں۔
جو عورت کلبوں میں کام کر کے ڈالر کماتی تھی اسے محب وطن سمجھا جاتا تھا
ایک خاتون کا کہنا تھا: ’سنہ 1972 میں جب میں ملازمت کے لیے ایک سینٹر پر پہنچی تو وہاں پر موجود افسر نے مجھے کہا کہ ذرا کرسی سے اٹھو اور پھر بیٹھ جاؤ۔ اس نے مجھے دیکھا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ایک ایسی ملازمت دلائے گا جہاں رہنے کو جگہ اور کھانے کو ملے گا اور باقی سب چیزیوں کی ذمہ داری میرے باس کی ہو گی۔‘ سینٹر میں جمع خواتین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جسم فوشی میں حکومت کی خاموش رضامندی شامل تھی کیونکہ اس وقت ملک کو غیر ملکی کرنسی کی بھی ضرورت تھی۔ ’ہر کوئی طوائفوں کو تو برا بھلا کہتا تھا، لیکن طوائفیں ملک میں جو ڈالر لا رہی تھیں وہ حکومت کو بہت اچھے لگتے تھے۔‘
یہاں تک کہ اگر کوئی عورت کلبوں میں کام کر کے ڈالر کماتی تھی تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ محب وطن ہے، یعنی ایک محنتی کوریائی خاتون۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ان برسوں میں بہت ڈالر کمائے تھے۔
اپنی دکھ بھری داستانیں سناتے ہوئے کبھی تو غصے سے ان خواتین کی آواز بلند ہو جاتی تھی اور کبھی غم میں ڈوب جاتی تھی۔
ایک خاتون نے بتایا: ’میں نے ایک ملازمت کی پیشکش قبول کر لی اور میں بار میں پہنچ گئی۔ لیکن میں بار میں پہنچتے ہی وہاں سے بھاگ گئی۔ آخر کار کلب کے مالک نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا اور مجھے ایک دوسرے کلب کے مالک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ یہاں پہنچنے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ جسم فروشی کی۔‘
ان خواتین کے دعوے اپنی جگہ، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا مقدمہ پیچیدہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت نے جنسی صحت کے مراکز قائم کیے تھے، لیکن ان مراکز کی جگہ پہلے غیر سرکاری ڈاکٹر کام کر رہے تھے ان میں کچھ کی طبی تربیت درست نہیں تھی اور وہ ہر عورت کو یہ سرٹیفیکیٹ دے دیتے تھے کہ اس کی جنسی صحت بالکل ٹھیک ہے اور اس سے کسی مرد کو جنسی بیماری منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
کوریا کی حکومت ان خواتین کے مقدمے پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کر رہی ہے، تاہم جب مقدمہ عدالت میں پہنچے گا تو ممکن ہے حکومت یہ موقف اختیار کر لے کہ جنسی صحت کے مراکز قائم کرنے کا مقصد خواتین کی صحت کا خیال رکھنا تھا، نہ کہ جسم فروشی کی ترغیب دینا۔
جنسی صحت مراکز کا مقصد خواتین کی صحت کا خیال رکھنا تھا نہ کہ جسم فروشی میں اعانت کرنا: حکومت
دوسری جانب اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سنہ 1970 کے عشرے میں جنوبی کوریا کی حکومت کو واقعی خدشہ تھا کہ امریکہ یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے۔
واشنگٹن میں برکنگز انسٹیٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار اور جنوبی کوریا میں جسم فروشی اور اس میں امریکی فوجیوں کے کردار پر مستند ترین کتاب ’اتحادیوں میں سیکس‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کیتھی مون نے بھی اس مقدمے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
’میرا خیال ہے جہاں جنوبی کوریا کی حکومت کا کچھ کردار نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ سنہ 1970 کے عشرے میں مرکزی حکومت کے کچھ افسران نے امریکی چھاونیوں کے قریب ان بستیوں میں جا کر جسم فروشی کرنے والی خواتین سے کہا تھا کہ وہ امریکی فوج کے افسران سے تعاون کیا کریں۔‘

Wednesday 26 November 2014

Phillip Hughes dies aged 25


Australia news

Phillip Hughes dies aged 25

November 27, 2014
Comments: 312 | Login via  | Text size: A | A
Phillip Hughes has died as a result of the injuries he sustained when struck by a bouncer on Tuesday, Cricket Australia has confirmed. He was 25.
Team doctor Peter Brukner confirmed the news in a statement released on Thursday afternoon.
"It is my sad duty to inform you that a short time ago Phillip Hughes passed away," Brukner said. "He never regained consciousness following his injury on Tuesday. He was not in pain before he passed and was surrounded by his family and close friends.
"As a cricket community we mourn his loss and extend our deepest sympathies to Phillip's family and friends at this incredibly sad time. Cricket Australia kindly asks that the privacy of the Hughes family, players and staff be respected."
Players, coaches and other friends had been in and out of St Vincent's Hospital in Sydney throughout Wednesday and Thursday, visiting Hughes and supporting his family, and each other. Australia's captain Michael Clarke, a close friend of Hughes', had been at the hospital until after midnight on Wednesday night and returned at about 6am on Thursday.
Brad Haddin, Steven Smith, Shane Watson, David Warner, Nathan Lyon, Moises Henriques, Mitchell Starc and Daniel Smith all spent time at the hospital, as did Ricky Ponting, Simon Katich, Phil Jaques and Brett Lee. Some flew in from interstate, including Aaron Finch, Matthew Wade, Peter Siddle, Peter Forrest, George Bailey, Ed Cowan, Justin Langer, and Cricket Australia's CEO James Sutherland and high performance manager Pat Howard. The national coach Darren Lehmann was there as well.
Also keeping vigil at the hospital were the Hughes family, including his mother and sister, who had been at the Sheffield Shield match between South Australia and New South Wales on Tuesday when Hughes was struck by the bouncer while batting on 63.
"The entire NSW cricket community offers our heartfelt condolences to Phillip's mother and father Virginia and Greg, sister Megan and brother Jason at this most difficult of times," John Warn, the Cricket New South Wales chairman said. "Their grief is being felt across the country and around the cricket world as the extended cricket family comes to terms with the sad loss of a very popular and talented young player.
"Phillip touched so many people playing for NSW, Australia, South Australia, county cricket in England and the IPL in India. A lovable, quiet and affectionate young man from the farming community of Macksville, Phillip has left an indelible impression on the game as a player and a person."
"So many in the NSW cricket family know Greg, Virginia, Jason and Megan personally. It is tragic that Phillip has been taken from them so young. He reflected their strong country values and warmth as a loving, caring family."
Andrew Jones, the Cricket NSW chief executive, said: "Phillip is fondly remembered as a bright and cheeky young man with an infectious smile who emerged as an outstanding junior more than a decade ago. Like so many NSW and Australian players before him, Phillip moved to Sydney to play Grade Cricket and found a home at Western Suburbs.
"He rose quickly through the ranks, debuting for NSW and scoring a century in a Sheffield Shield final at 19. For all his good humour he took cricket very seriously and always worked tremendously hard at his game. Despite being in and out of the Australian team during his emerging years Phillip never complained when he was dropped or overlooked. He always focused on making himself a better player.
"It was typical of Phillip that he was fighting his way back into the national team again with a fine innings for South Australia against NSW at the SCG last Tuesday before suffering a freak accident. Phillip had already scored 26 first class centuries and his best cricket was ahead of him. It is unspeakably sad he cannot now achieve his potential in the game."
On Tuesday, Hughes was playing against his former state when he missed his attempted hook and the ball struck him below the helmet, causing a cerebral haemorrhage. He underwent surgery on Tuesday after being rushed to hospital from the SCG, and was then in an induced coma.
"It's really a matter of millimetres and the bad luck of the actual site of the impact," sports doctor Peter Larkins told the Australian on Wednesday. "It's very critical what part of the brain gets hit, you can actually just get a bruised brain or simply a crack in the skull when you get hit in certain parts of the head and not have anything as serious as Phillip has got. In this case it's hit a particular artery at the base of the neck that has burst.
"There's just an incredible release of blood from the burst artery and that's where the bleeding in the brain, the cerebral haemorrhage, occurs."
Hughes played 26 Tests for Australia and scored three centuries, and he appeared a strong chance to win a recall for next week's first Test against India at the Gabba, with Clarke expected to be ruled out due to injury. Hughes first emerged as an international cricketer on the 2009 tour of South Africa, where at the age of 20 in Durban he became the youngest man ever to score two centuries in a Test.
He scored 26 first-class centuries and was a prolific scorer for New South Wales, for whom he had debuted at the age of 18, and later for South Australia. Hughes had been part of Australia's most recent Test squad, for the series against Pakistan in the UAE, but he was not called on to play a Test in that series0

Tuesday 25 November 2014

sharaqpur sharif history

شرق پُور
City
Sharqpur
شرق پُور is located in Pakistan
شرق پُور
شرق پُور
Coordinates: 31.27°N 74.6°ECoordinates31.27°N 74.6°E
CountryPakistan
ProvincePunjab
DistrictSheikhupura
Elevation196 m (643 ft)
Time zonePST (UTC+5)
Calling code0562
Websitewww.Sharaqpur.com
Sharqpur (Urduشرق پُور‎), also called Sharqpur Sharif, is a city and Tehsil headquarters of
Sharqpur (Urduشرق پُور‎), also called Sharqpur Sharif, is a city and Tehsil headquarters ofSharqpur Tehsil of Shaikhupur District in the Punjab province of Pakistan. It is located at 31°27′48″N 74°6′0″E[1] and lies on the Jaranwala road 32 km from Lahore, and 20 km from first exit of M2. It is very beautiful and flourishing town with different flowers, greenery, meadows and gardens of different fruits. Sharqpur Sharif is known as the city of Saints. Most of the Saints belongs to Arain tribe and is popular due to the presence of the shrine of Hazrat, Mian Sher Muhammad Sharqpuri born in 1282 AH., or 1865 AD., in Sharqpur (District Sheikhupura, Punjab). His father's name was Mian Azizuddin. Mian Sher Muhammad was strict observer and preacher of Quran and the Sunnah. He led a very simple life and blessed numerous people including Allama Muhammad Iqbal. He died on Rabi-ul-Awwal 3, 1347 AH., or August 20, 1928 and was laid to rest in Sharaqpur. His shrine is also present in the city's vicinity.

Gallery[edit]

History and families[edit]

Sharqpur is a town and tehsil on Jaranwala Road 32 km from Lahore. Many years ago, the river Ravi flowed here and due to the river's presence this area was cultivated. The tribes of Gujranwala saw this place and settled here, followed by the forefathers of the Arain tribe from Sahiwal. The founder of Sharaqpur who built the first home in the area was the grandfather of Hafiz Muhammad Jamal. In this period Hazrat Hafiz Muhammad Qadri and religious scholars came here from Hujra Shah Muqueem and built a mosque. Hazrat Syed Abdul-Qadar Sani (Almaroof Kimia-ul-nazar) stayed here.
In Sharaqpur the largest population is of Arain and Sheikh Arain families. The most notable and most respected Arain family is the family of Saint Mian Sheer Muhammad. The notable members of this family are Sahibzada Mian Muhammad Abubakar (successor to the shrine or Hazrat Mian Sher Muhammad), Sahibzabda Mian Marghoob Ahmad (former Tehsil Nazim Sharaqpur), Mian Jaleel Ahmad (former MNA and district Nazim) and Mian Saeed Ahmad (former MPA and Chairman Zakat and Usher).And also notable family from Kot Mehmood Arain family of Malik Muhammed Nawaz and his son youngest politician Malik Akhtar Nawaz.

Origins of the name[edit]

Different opinions exist about the origins of Sharqpur's name. Mian Mohammad Ashiq writes in his book History of Sharqpur that the name of Sharqpur was kept by the numbers. If one counts the numbers of Sharqpur then it will be 808[clarification needed] and this is the year of foundation of Sharqpur. Another opinion is that Sultan Muhammad Shah Sarqi used to meet famous personalities of Sharqpur and give special attention in this area. Therefore, people began to call this area "Sharqipur", which evolved into "Sharaqpur".

Culture and economy[edit]

Sharaqpur is known as the home of the shrine of Saint Mian Sher Muhammad, also known as Sher-E-Rabbani, Mian Ghulam Ullah, known as Sani SB, and Mian Ghulam Ahmad, known as Shabeh-e-Shere Rabbani. Mian Sher Muhammad Sharqpuri was born in 1282 AH, or 1865 AD, in Sharqpur. His father's name was Mian Azizuddin. Mian Sher Muhammad was a strict observer and preacher of Quran and the Sunnah. He led a simple life and blessed numerous people. He died on Rabi-ul-Awwal 3, 1347 AH, or August 20, 1928 and his tomb (darbar sharif) is in Sharaqpur Sharif.
A special kind of shoes called Khusah is manufactured here and is popular throughout the Punjab province. These Khusahs are made by hand; no machines are used in their creation. Nowadays, these are specially designed for bridegrooms at wedding ceremonies. Leather and silver or golden thread are used for their manufacturing. The Khusah is a part of Punjabi culture.
Sharaqpur has a decorated food street, which is the main bazaar of the old city. It extends from Nalkay Wala Chowk to Malkana Gate. It is open around the clock, 24/7. One can find all kind of foods here, including the popular local dessert, gulab jamun.
The area's main crops include rice, wheat, sugar cane, and maize. Cultivated fruits include guavaswatermelonalicheestrawberries, and falsa. Vegetables include potatoes, peas, onions, tomatoes, cabbage, and radishes, among many others.